Pakistan Tour
قدرت کی حسین وادیوں کی سیر
میں کیا چاہتا ہوں؟
میں خالق کائنات کی بنائی ہوئی ساری دنیا دیکھنا چاہتا ہوں۔
دنیا پر بسنے والے ہر طبقہ ہر مذہب ہر قوم کے شخص ہررنگ و نسل سے ملنا چاہتا ہوں
میں چاہتا ہوں مختلف تہذیبوں کو دیکھوں۔
میں صحراؤں کی ریت چھاننا چاہتا ہوں۔
میں پہاڑوں کی قدامات ماپنا چاہتا ہوں۔
میں دریاؤں سمندروں کی گہرائی جاننا چاہتا ہوں۔
میں جنگل و بیاباں کے رازوں سے واقف ہونا چاہتا ہوں۔
میں میدانوں کی زرخیز زمین کے فصل سے اس کی تخلیق کا پوچھنا چاہتا ہوں۔
میں پہاڑوں پر پڑی برف سے اس کا دکھ سننا چاہتا ہوں۔
میں قدیم عماراتوں سے عہد رفتہ کی شان و شوکت کا اندازہ لگانا چاہتا ہوں۔
میں دینا کی سیر کرنا چاہتا ہوں۔
اور پھر دنیا کو اپنے ورقوں پر قلم بند کرنا چاہتا ہوں۔
میں پاکستان کی خوبصورتی، پہچان اور قدرتی نظارو کی
سیر کرنے جا رہا ہوں۔
میرا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک ایسے شہر سے ہے جس کو شیروں کا شہر کہا جاتا ہے۔ میرا یہ سفر اپنے شہر سے ہی شروع ہوا ہے اور میرے اس سفر میں میرے ساتھ دو دوست بھی شامل ہیں جن کے نام عمران، عامر اور میرا نام علی ہے۔ میرا یہ یادگار سفر مری کی حسین وادیوں کی سیر کا تھا۔
جنوری کا مہینہ تھا اور سخت سردی پڑ
رہی تھی اسلئے ہم نے گرم کپڑے ٹراوز دستانے اور بہت کچھ اپنے بیگ میں رکھ لیا ساتھ
میں مونگ پھلی اور مالٹے بھی رکھ لئے۔ ان کے بغیر ہمارا یہ سفر ادھورا تھا۔ برف
دیکھنے کا شوق تھا اور اپنے اس شوق کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہم اپنے ساتھ سب کچھ
لے جانے کیلئے تیار تھے۔
منڈی بہاوالدین ریلوے اسٹیشن
20 جنوری 2020 کی صبح ٹرین کے ٹائم کے مطابق ہم 7:30 پرمنڈی بہاوالدین ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے مگر ٹرین معمول سے تھوڑا لیٹ ہونے کی وجہ سے 7:45 پر اسٹیشن پر پہنچی۔ ہم نے اپنے ٹکٹ لئے اور ٹرین پر سوار ہو گئے۔2 منٹ بعد وسل ہوئی اور ٹرین نے اپنا سفر شروع کر دیا اور تھوڑی ہی دیر میں ٹرین درختوں اور ہوا سے باتیں کرنے لگی۔قریب 55 منٹ کی مسافت کے بعد ٹرین لالہ موسی کی حدود میں داخل ہوئی تو ہم لوگ اپنے بیگ لے کر دروازے کے پاس چلے گئے کیونکہ اس وقت 9 بج چکے تھے اور عامر کی ٹرین 9:15 پر لالہ موسی پہنچ رہی تھی اس لئے ہم جلد از جلد ٹرین سے نیچے اُترنا چاہتے تھے۔
لالہ موسیٰ جنکشن
ٹرین سے اترتے ہی ہم نے راوالپنڈی کی ٹکٹ خریدی اور ریل کار کا انتظار کرنے لگے۔ ٹرین ٹریکر سے ٹرین کو ٹریک کیا اور ریل کے نزدیک آنے پر میں نے 3 کپ چائے سٹال سے لئے اور ٹرین پر سوار ہو گئے۔ سینڈوچ عامر لاہور سے لے آیا تھا۔ جو ہم نے چائے کے ساتھ کھائے اور اپنے سفر کو دوبارہ انجوائے کرنے لگے۔
کھاریاں کینٹ اور جہلم کراس کرنےکے بعد
پوٹھار کا پہاڑی سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ ہماری ٹرین ان پہاڑوں کے درمیان اپنا سفر
طے کر رہی تھی۔ دونوں طرف حد نگاہ تک پہاڑ ہی پہاڑ اور اُن پر لگے سبز درخت ایک
دیدہ زیب نظارہ پیش کر رہے تھے۔ جنوری کی اس سردی میں ٹرین میں بیٹھ کر خطہ
پوٹھوار کے پہاڑوں میں ہلکی دھوپ کے ساتھ سفر کرنے کا مزہ وہ ہی محسوس کر سکتے ہیں
جنہوں نے سردیوں میں یہ سفر ریل سے کیا ہو۔
گوجر خان ریلوے اسٹیشن
گجر خان اسٹیشن پر ٹرین نے بریک لگائی۔
پلیٹ فارم پر دھوپ دیکھ کر ہر کسی نے ٹرین سے نیچے اُترنے کی کوشش کی۔ ہم ٹرین سے
اُترے اور دھوپ میں پڑے بینچ پر بیٹھ کر مالٹے کھائے جو ہم گھر سے ساتھ لے کر آئے
تھے۔
2 منٹ کے بعد وسل کے ساتھ ہی پاِئلٹ نے
سائرن بجایا اور ہم گاڑی میں سوار ہو گئے۔ اگلا اسٹیشن راوالپنڈی ریلوے اسٹیشن
تھا۔ ٹرین پہاڑوں سے ہوتی ہوئی اپنا سفر طے کر رہی تھی اور ہم کھڑکی سے دھوب اور
ٹھنڈی ہوا کے ساتھ پہاڑوں سے لطف اندوز ہو رہے تَھے۔
ٹھوڑی دیر کیلئے میں گاڑی کے دروازے کے
پاس آیا اور موبائل نکال کر کچھ تصاویر اور حسین مناظر کی ویڈِوز بنائی اور واپس
اپنی سیٹ پر چلا گیا۔ مزید 2 گھنٹے کے سفر کے بعد اب ہم راوالپنڈِی کی حدود میں داخل
ہوچکے تھے۔ چکلالہ ریلوے اسٹیشن کراس کرنے کے بعد ٹرین کی سپیڈ کم ہو گئی چکلالہ ریلوے
اسٹیشن سے راوالپنڈی کا صدر ریلوے اسٹیشن کے درمیان 5 منٹ کا فاصلہ ہے۔ راوالپنڈی
ریلوے اسٹیشن پر گاڑی نے بریک لگائی اور ہم لوگ اپنا سامان اُٹھائے پلیٹ فارم سے
باہر نکل آئے۔
راوالپنڈی ریلوے اسٹیشن
ہماری اگلی منزل ایک ہوٹل تھا جس میں ہم نے ایک دن اور ایک رات کا قیام کرنا تھا۔ وہ ہوٹل آئی جے پی روڈ پر "آئی نائن" اشارہ کے پاس تھا۔ اس ہوٹل میں ہم لوگ پہلے بھی کئی دفعہ قیام کر چکے ہیں اور ہمیں اس ہوٹل کی صفائی اور عملہ کا تعاون کافی پسند تھا جسکی وجہ سے ہم لوگ آج بھی اُسی ہوٹل میں قیام کرتے ہیں۔
اسٹیشن سے باہر ہم نے ایک ٹیکسی کرائے پر لی اُسکو ہوٹل کا راستہ بتایا اور ہوٹل کی طرف چل پڑے۔
مری روڈ راوالپنڈی
راولپنڈی مری روڈ پر زیادہ ٹریفک کی وجہ سے ہمیں کافی مشکل کا سامنہ ہوا۔ قریب چالیس منٹ کےسفر کے بعد ٹیکسی والے نے ہمارے بتائے گئے ہوٹل کے باہر گاڑی روک دی۔ ہم نے کرایہ ادا کیا اور ہوٹل کے دروازے سے اندر داخل ہوئَے۔ ہوٹل کے استقبالیہ پر کھڑے ایک شخص نے ہمارا ویلکم کیا۔ ہمیں رہنے کیلئے ایک کمرہ چاہیئے تھا۔ ہوٹل کے سٹاف نے ہمیں کافی کمرے دیکھائے جن میں سے ہم نے ایک خوبصورت اور بڑے کمرے کا انتخاب کیا۔ استقبالیہ پر جا کر اپنا اندراج کمپیوٹر میں کروایا اور واپس کمرے میں آ گئے۔دن کے ساڑھے بارہ بج چکے تھے۔ ہم جلدی سے فریش ہوئے کپڑے تبدیل کیئے اور کمرے کو لاک کر کے باہر کھانا کھانے چل دیئے۔ 30 منٹ کے بعد ہم نے ایک ٹیکسی کرایہ پر لی جس پر ہم نے اسلام آباد کے تفریح مقامات کی سیر کرنی تھی۔ کچھ کھانے پینے کی اشیاء ساتھ لیں اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔
اسلام آباد
یہاں میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں، میرا ایک اصول ہے۔
"کم جگہ پر جاو مگر جہاں بھی جاو اُس جگہ کو آرام سے انجوائے کرو"
اس اصول کو اپناتے ہوئے ہم نے 2 مقامات کی سیر کا ارادہ کیا۔
اسکی وجہ ایک تو سردی کے دن تھے اور دوسری یہ کہ دوپہر کا 1 بجنے والا تھا اور ہمارے پاس تقریبا 4 سے 5 گھنٹے بچے تھے گھومنے کی لئے۔ اس لئے ہم نے سب سے پہلے فیصل مسجد کا رُخ کیا۔
مسجد کی عمارت کی تعمیر اور اور مسجد کی لوکیشن فیصل مسجد کی خوبصورتی کو بڑھا رہی تھی۔اسلام آباد کے اختتام پر اور مارگلہ پہاڑ کے درمیان واقع یہ مسجد ایک دیدہ زیب منظر پیش کرتی ہے۔ اس مسجد کو میلوں دور سے بھی با آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔
مارگلہ پہاڑ سے فیصل مسجد کا نظارہ
اس مسجد کو
پاکستان اور سودی عرب کی دوستی کے نام پر سودی بادشاہ شاہ فیصل نے اپنے دورے حکومت
میں تعمیر کروایا۔ اسی وجہ سے اس مسجد کا نام فیصل مسجد رکھا گیا۔ رقبے کے لحاظ سے
یہ مسجد دنیا کی 6ویں بڑی مسجد ہے۔ مسجد
کے احاطے میں اسلامک یونیورسٹی قائم کی گئی۔ اسلامک یونیورسٹی انٹرنیشنل یونیورسٹی
ہے جہاں بیرون ممالک سے بھی طالب علم پڑھنے آتے ہیں۔ 1988 میں پاکستان کے جزل ضیاء
الحق کا جہاز کریش ہوا اور جزل ضیاء شہید ہو گئے۔ آپ کا مزار فیصل مسجد کے گراونڈ
میں مسجد کے داخلی دروازے کے سامنے مغرب سائیڈ پر تعمیر کیا گیا۔
مزار جنرل ضیاء الحق شہید
ہم مسجد میں داخل
ہوئے۔ کچھ تصاویر لی۔ مسجد کے اندر والے ہال کو دیکھنے کی دلی چاہ تھی۔ پوچھنے پر
پتہ چلا کہ نماز کے ٹائم مسجد کے ہال کو کھولا جائے گا۔ نماز میں ابھی ٹائم باقی
تھا۔ ہم لوگ مسجد کے پیچھلے والے حصے میں جا کر بیٹھ گئے اور قدرت کے حسین نظاروں
سے اپنے دماغ کو ترو تازہ کرنے لگے۔ مسجد کا جائزہ لیا گیا۔ مسجد چار میناروں پر
مشتعمل ہے جو کہ مسجد کے چاروں کونوں میں
نصب کیئے گئَے ہیں۔ مسجد کا ہر مینار 90 میٹر لمبا ہے جو باقی میناروں کی نسبت بہت
زیادہ لمبائی رکھتے ہیں۔
فیصل مسجد اسلام آباد
میں نے کچھ تصاویر بنائی اور قدرت کے ان حسین نظاروں کو اپنے کیمرے میں سنبھال لیا۔ تھوڑی دیر کیلئےموبائل اور کیمرے کو سائیڈ پر رکھ کر مارگلہ کی پہاڑی اور اس پر اُگے سبزے کو دیکھنے لگا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے میں ہوا میں سفر کر رہاہوں۔ تھوڑی دیر کیلئے اپنی آنکھیں بند کی تو خود کو دنیا سے الگ پایا۔ عصر کی آذان شروع ہو گئی ۔ ہم وضو کر کے ہال کی طرف گئے تو ہال کھل چکا تھا اور کافی لوگ نماز ادا کرنے کیلئے ہال کے اندر جا رہے تھے۔ ہال کے اندر نہایت خوبصورت فانوس نصب کیا گیا ہے جو مسجد کی خوبصورتی میں اضافہ کرتا ہے۔ ہال کے اندر سب دیواروں پر قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ ہم نے نماز عصر باجماعت ادا کی۔
فیصل مسجد کا اندرونی منظر
مسجد کے ہال کی تصاویر ریکارڈ کی اور بیرونی حصے میں آ گئے۔ بیرونی حصے میں بہت بڑا ایک صحن واقع ہے جو کہ مشرق کی جانب لمبائی میں پھیلا ہوا ہے۔ صحن کے درمیان سیڑھیاں موجود ہیں جو مسجد میں بنائے گئے تالاب کے چاروں سائیڈ نیچے کی طرف اُترتی ہیں۔ وضو کرنے اور غسل خانے جانے والے انہی سیڑھیوں کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ سیڑھیاں بغیر کسی سہارے کے آج بھی اصل حالت میں کھڑی ہیں۔
فیصل مسجد کے صحن میں واقع تالاب
اور دوسرا مسجد
کے پیچھلے حصے میں تعمیر کیا گیا ہے۔
مسجد میں لاِئٹس کو اس طرح نصب کیا گیا ہے کہ رات کے وقت مسجد کا ہر حصہ اسکی خوبصورتی کی تعریف کر رہا ہوتا ہے اور دیکھنے والے کی آنکھیں دیکھتی ہی رہ جاتی ہیں۔
رات کے وقت فیصل مسجد کا خوبصورت نظارہ
نماز عصر ادا
کرنے کے بعد ہم نے جزل ضیاء الحق کی قبر پر فاتحہ خانی کی اور واپس گاڑی میں بیٹھ
گئے۔
ہمارا اگلا پکنک
پوائنٹ "پاکستان مونومنٹ" تھا۔
پاکستان مونومنٹ جسکا دوسرا نام "یادگار پاکستان" ہے۔ اسلام آباد میں شکر پڑیاں کی پہاڑیوں پر واقع ہے۔ پاکستان مونومنٹ کی تعمیر 2004 سے لے کر 2006 کے عرصے میں مکمل ہوئی۔
پاکستان مونومنٹ اسلام آباد
23 مارچ 2007 کو
صدر پاکستان جزرل پرویز مشرف نے اسکا افتتاع کیا اور اسے سیرو تفریح کیلئے آنے
والے لوگوں کے لئے کھول دیا گیا۔ "یاد گار پاکستان" یعنی مونومنٹ کا
ڈیزائن کھلتے ہوئے پھول کی پتیوں کی طرح کا ہے۔ ان پتوں کی کُل تعداد 7 ہے۔ جن میں
سے 4 پتے بڑے اور 3 چھوٹے پتے ہیں۔ 4 بڑے پتے پاکستان کے چاروں صوبوں پنجاب، سندھ،
بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے علاقوں کو ظاہر کرتے ہیں جبکہ3 چھوٹے پتے آزاد
کشمیر، گلگت بلتستان اور فاٹا کے علاقوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
اس تصویر میں آپکو چار بڑے پتے اور تین چھوٹی پتیاں دیکھائی دے رہی ہیں
ان سات پتیوں کے
درمیان ایک چمکتا ہوا کالے رنگ کا مینار نما پتھر کھڑا ہے جس پر گولڈن ستارے موجود
ہیں۔ یہ ستارے اُن لوگوں کی نشاندہی کرتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی، اپنی جانیں
اپنا مال سب کچھ اس وطن عزیز پاکستان کیلئے قربان کر دیا۔
کالے رنگ کا پتھر اور اُس پر موجود چمکتے ستارے
یاد گار پاکستان کے پیچھلے حصے میں اسکا صحن واقع ہے جس پر محراب بنے ہوئے ہیں۔ یہاں سے آپ کو پورے اسلام آباد کا نظارا دیکھنے کو ملتا ہے۔
پاکستان مونومنٹ کا پچھلا حصہ
یاد گار پاکستان
"پاکستان مونومنٹ" میں ہم نے کافی انجوائے کیا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی
جسکے ساتھ پکنک کا مزہ دوگناہ ہو گیا۔ میں کچھ دیر کیلئے فوٹو گرافی میں مصروف ہو گیا۔
سردیوں میں عصر کی نماز کے بعد سورج کافی تیزی سے غروب ہونے لگتا ہے اور جلد شام ہو جاتی ہے۔
اس وقت شام کے 5 بجنے والے تھے لہذا ہم نے واپسی کی راہ لی اور باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ 5:45 تک ہم لوگ ہوٹل پہنچ گئے تھَے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی ہمیں سردی کا احساس ہوا اور ہم بستر میں جا گھسے۔
کچھ دیر آرام کرنے بعد ہم نے راولپنڈی کی مشہور "فوڈ سٹریٹ" جانے کا پروگرام بنایا جو کہ ہمارے ہوٹل سے 5 منٹ کی پیدل واک کے فاصلے پر واقع تھی۔ سیور فوڈ اسلام آباد اور راوالپنڈی کے مشہور اور ذائقے دار چاول ہیں۔ ہم نے وہاں سےکھانے میں چاول خریدے اور راستے سے مونگ پھلی ساتھ مالٹے اور ایک کولڈڈرنک بھی خرید لی اور واپس کمرے میں آ گئے۔ رات کے کھانے کے بعد ہم باہر روڈ پر چہل قدمی کرنے چلے گئے۔ 11 بجے تک ہم واپس اپنے کمرے میں موجود تھے۔ اگلے دن ہم نے برف باری دیکھنے مری جانا تھا اس لئے ہمیں اگلی صبح کا شدت سے انتظار تھا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں