Meri Pheli Baraf Bari
میری پہلی برف باری
21 جنوری 2020
کی صبح 6 بجے عامر نے ہمیں جگایا اور ہم نے نمازِ فجر ادا کی۔ نمازادا کرنے کے بعد
ہم نے ہوٹل انتظامیہ سے انہی کا مری میں موجود ہوٹل کا فون نمبر لیا اور اُن سے کمرے کی
معلومات اور مری کے موسم کے بارے میں پوچھا۔ پتہ چلا کہ صبح 5 بجے سے مری میں برف باری
ہو رہی ہے۔ ہم نے جلدی سے اپنی پیکنگ کی اور ناشتے کیلئے باہر نکل گئے۔ ناشتہ کرنے
کے بعد ایک کار کرائے پر لی سامان گاڑی میں رکھا اور مری کی جانب چل دیئے۔
ہمارا نیا سفر شروع ہو چکا تھا اور ہماری اگلی منزل مری تھی۔ راستے میں بری امام دربار تھا اور ہماری وہاں حاضری لازمی تھی۔ ہم نے پہلے امام بری دربار حاضری دی۔ اپنے سفر کی خیر کیلئے دعا مانگی اور اپنا سفر جاری کر دیا۔
امام بری دربار
ہم بارہ کوہ کراس کر چکے تھے اور اب پہاڑی راستہ شروع ہو چکا تھا۔ راستے میں ایک چائے کے دھابے پر ہم روکے چائے پی اور سفر کو انجوائے کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ ایک دو پکنک پوئنٹ پر ہم نے گاڑی روکی کچھ دیر راستے میں آرام کیا۔ بارش شروع ہو چکی تھی۔ڈرائیور کا کہنا تھا کہ بارش شروع ہونے کا مطلب مری میں ابھی تک برف باری ہو رہی ہے۔ یہ سننے کے بعد ہماری بے چینی مزید بڑھ گئی اور ہم جلد از جلد مری پہنچنا چاہتے تھے مگر بارش کی وجہ سے گاڑی کی سپیڈ بڑھانا مشکل تھا کیونکہ سڑک کے ایک سائیڈ پہاڑ اور دوسری سائیڈ گہری کھائی تھی۔ اسلئے ہم لوگ نارمل سپیڈ سے آگے بڑھ رہے تھے۔
بارش کے ساتھ مری کا حسین راستہ
40 منٹ سے بارش ہو رہی تھی۔ ڈرائیور اپنی نارمل
رفتار سے گاڑی کو آگے بڑھا رہا تھا اور ہم لوگ کھڑکی سے باہر بارش کے ساتھ اپنے
حسین سفر کو انجوئے کر رہے تھے۔ اچانک ہمیں آگے سے سپیڈ میں اپنی طرف آتی بس
دیکھائی دی
جو کشمیر سے آ رہی تھی بس کی چھت برف سے ڈھکی ہوئی تھی اور اس بات کی نشاندہی تھی کہ مری میں برف باری ہو رہی ہے اتنے میں ہماری گاڑی کی فرنٹ سکرین پر بارش کی جگہ اب برف گرنا شروع ہو گئی۔
ہم لوگ کافی خوش تھے کیونکہ ہمارے مری آںے کا مقصد ہی برف باری دیکھنا تھا۔ ہماری گاڑی مزیر اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اب ہمیں سڑک کنارے پڑی برف دیکھائی دینے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے برف والے پہاڑ بھی آنا شروع ہو گئے۔ میں نے فورا کیمرہ آن کیا اور اس خوبصورت منظر کی ویڈیو بنانے لگا۔ کبھی ہاتھ کھڑکی سے باہر نکال کر برف کو اپنی ہتھیلی پر محسوس کرتا تو کبھی اپنا چہرہ کھڑکی سے باہر نکال لیتا۔ اب ہم جس سڑک پر سفر کر رہے تھے وہ مکمل طور پر برف سے سفید ہو گئی تھی ہمیں اپنے اردگرد کے پہاڑ بھی سفید دیکھائی دینے لگے۔
برف باری میں مری کا حسین منظر
سڑک کنارے لوگ اپنی فیملیوں کے ساتھ تصویریں بنا رہے تھے اور بچے ایک دوسرے پر برف پھینک کر زندگی کے حسین پلوں کو جی رہے تھے۔ ہماری گاڑی مال روڈ کے قریب جا کر روک گئی کیونکہ برف باری بہت تیز تھی جسکی وجہ سے گاڑیاں سلیپ ہو رہی تھی تو ہم مال روڈ سے پیچھے ہی اُتر گئے۔ سامان گاڑی سے نکالا اور ہوٹل کی طرف چلنے لگے۔
برف باری کافی تیز تھی اور ہمارے ہاتھ اور پیر سُن پڑنے لگے۔ مال جانا مشکل تھا اس لئے ہم نے مال روڈ سے دور ہی ایک ہوٹل میں کمرہ بُک کروایا سامان کو سائیڈ پہ رکھ کر بستر میں چلے گئے۔
اس وقت دن کے ساڑھے
گیارہ بج چکے تھے۔ چائے پینے کا جی چاہا رہا تھا۔ چائے پینے کے بعد ہم نے کپڑے
چینج کئے۔ جیکٹ جرسی مفلر دستانے ٹوپی غرض ہر چیز دوگناہ پہن کر ہم نے مال روڈ کا
روخ کیا۔
مال روڈ مری
برف باری ابھی تک پڑھ رہی تھی۔ مال روڈ پر پہنچے تو وہاں الگ ہی دنیا تھی۔ لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر مال روڈ پر گھوم رہے تھے۔ صبح ہلکا پھلکا ناشتہ کرنےکی وجہ سے کچھ کھانے کا دل کر رہا تھا مال روڈ پر واقع فوڈ سٹریٹ کا رُخ کیا۔ کھانا کھانے کے بعد ہم جی پی او چوک کی طرف چلنے لگے۔
ہم بھی
انہی لوگوں میں شامل ہو گئے تھے جو ہر چیز کی پرواہ کئے بغیر اس لائیو سنو کو
انجوائے کر رہے تھے۔ 10 منٹ جی پی او چوک کا نظارہ کیا اُسکے بعد ہم نے پنڈی پوئنٹ
جانا کا فیصلہ کیا اور مال روڈ پر چہل قدمی کرتے آگے بڑھنے لگے قریب 50 میٹر چلنے
کے بعد ہمیں ایک گاڑی میں مرد خواتیں نظر آئے جو کافی پُرجوش تھے ہم نے سوچا کہ وہ
لوگ ایک فیملی کے ہیں اور اپنی گاڑی کرائے پر حاصل کی ہو گی ویسی گاڑی میں نے پہلے
ٹی وی ڈراموں میں دیکھی تھی یا اب مری میں دیکھ رہا تھا جو چاروں اطراف سے اوپن تھی اور بیٹری پر چلتی تھی۔ ہمیں معلوم ہوا کہ اس گاڑی پر ہر کوئی سفر کر سکتا
ہے کرایہ ادا کر کے۔ ہم نے کرایہ پوچھا تو جی پی او چوک سے پنڈی پوائنٹ تک کا فی
بندا 50 روپے تھا۔ ہم تین لوگ تھے اسلئے ہم نے 150 روپے ادا کئے اور اپنے اس
ایڈوینچر کو مزید انجوائے کرنے لگے۔چونکہ اس گاڑی میں کوئی دروازہ اور کھڑکی نہی
تھی بلکل اوپن گاڑی تھی تو ٹھنڈی ہو چاروں اطراف سے ہمارے جسم سے ٹکراتی مگر ہم تو
مری گئے ہی برف باری کو انجوائے کرنے تھے اس لئے ہم نے ٹھنڈ کو محسوس کرنے کی
بجائے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے لگے۔
مال روڈ مری
ہر طرف برف کی سفید چادر پھیل چکی تھی اور اس چادر پر ہر رنگ اور نسل کے لوگ اپنی فیملی اور اپنے دوستوں کے ساتھ زندگی کے حسین لمحوں کو جی رہے تھے۔ جی پی او چوک سے پنڈی پوائنٹ کی طرف جاتی ہوئی سڑک جسے مال روڈ کہا جاتا ہے کہ ایک سائیڈ پر پہاڑ اور کچھ آرام کرنے کیلئے آرام گاہ ہیں جبکہ دوسری سائیڈ پر نیچے کی طرف وہاں کے رہنے والوں کے گھر اور دکانیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جی پی او چوک سے پنڈی پوائنٹ کی طرف جاتے ہوئے آپ کو راستے میں مختلف اقسام کی دکانیں ملتی ہیں جن میں بیکری، کولڈ کارنر، جنرل سٹور، پکوڑہ سموسہ پوئنٹ، گفٹ سنٹر اور بھی کئی اقسام کی دکانیں شامل تھیں۔ مال روڈ پر جہاں لوگ چہل قدمی کے ساتھ ساتھ قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہو رہے تھےوہی ہم بھی خود کو دنیا کے خوش قسمت انسانوں میں شمار کر رہے تھے جو اللہ تعالی کی بنائی ہوئی زمینی جنت کے نظارے کرتےہیں۔
حد نگاہ تک برف ہی برف پھیلی ہوئی تھی۔ درختوں کے پتے جھڑ چکے تھے اور لکڑی کے تنے برف سے سفید ہو گئے تھَے۔ جوں جون ہم پنڈی پوائنٹ کی طرف بڑھ رہے تھے برف مزید تیز ہو رہی تھی اور لوگوں کا ہجوم بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ قریب20 منٹ تک ہم لوگ پنڈِ پوائنٹ کی چیئر لفٹ کے پاس پہنچ چکے تھے۔ گاڑی میں ٹوٹل 15 لوگ ایک ٹائم میں بیٹھ سکتے تھے اور گاڑی دونوں اطراف سے کھلی تھی جسکی وجہ سے گاڑی رُکنے کے ایک منٹ کے اندر سب لوگ گاڑی سے اُتر گئے اور گاڑی دوبارہ واپس جانے والے لوگوں کو لینے کیلئے دوسری سائیڈ چلی گئی۔ ہم نے چیئر لفٹ میں بیٹھنا چاہا مگر چیئر لفٹ پر بیٹھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ایک لمبی قطار میں لوگ کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے اس لئے ہم نے چیئر لفٹ کا پروگرام کینسل کیا اور پنڈی پوائنٹ کے نظارے سے لطف اندوز ہونے لگے۔
پنڈی پوائنٹ چیئر لفٹ
گھڑ سواری کا بہت شوق تھا مگر کبھی موقع نہی ملا۔ پنڈی پوائنٹ پر موجود گھوڑا دیکھ کر اُس پہ سواری کا دل چاہا۔ ایک گھڑ سوار سے بات چیت کی اور اُسے کرایہ ادا کر دیا۔ جہاں گھوڑے پر بیٹھنے کا شوق تھا وہاں دل میں ایک ڈر بھی تھا۔ کیونکہ گھوڑے پر بیٹھنا پہلا اتفاق تھا میرا۔ اللہ کا نام لے کر گھوڑے پر سوار ہوا اور اُس کی لگام گھڑ سوار نے سنبھال لی۔ گھوڑے نے چلنا شروع کیا تو ایک عجیب لطف آ رہا تھا۔ اچانک گھوڑا برف کی وجہ سے سلِپ ہوا اور میرے حواس اُڑ گئے مگر گھڑ سوار نے گھوڑے کو سنبھالا اور اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگا۔ تھوڑا سفر طے کرنے کے بعد گھوڑا واپس کی طرف مُڑا اور پنڈی پوائنٹ پر جا کر رُک گیا۔ میں چھلانگ لگا کر نیچے اُترگیا۔
کافی ٹائم پنڈی پوائنٹ پر گزارنے کے بعد ہم واپس کی طرف چلنے لگے۔ برف باری ابھی تک ہو رہی تھی اور کافی شدید برف گِر رہی تھی جسکی وجی سے سڑک اور اطراف میں کافی زیادہ برف اکٹھی ہو گئی تھی۔ مرد عورتیں بڑے چھوٹے بچے ہر کوئی اپنے چاہنے والوں کو برف کے گولے بنا کر مار رہا تھا۔ ہم بھی اس کھیل میں شامل ہو گئے اور ایک دوسرے کی طرف برف کے گولے پھینکنے لگے۔ ہم نے واپسی پر پیدل واک کا فیصہ کیا اور مال روڈ پر چہل قدمی شروع کر دی۔ راستے میں بچوں کی طرح آپس میں مستیاں کرتے رہے۔ کبھی کسی ایک کو دھکا دے کر برف پر گرایا اور باقی 2 نے اُس کے اوپر اچھی خاصی برف پھینک دی تو کبھی برف کے گولے بنا کر ایک دوسرے کی طرف پھینکنے لگے۔
دوپہر کے 2 بج رہے تھے آدھا راستہ گزر گیا تو دکانیں اور مارکیٹ شروع ہو گئی تھی۔ جی پی او چوک سے پنڈی پوائنٹ کی طرف جاتے ہوئے ایک حد تک آپ کو دکانیں اور مارکیٹیں ملتی ہیں اسکے بعد لوگوں کے گھر شروع ہو جاتے ہیں اور تھوڑا آگے جانے کے بعد آرمی ایریا شروع ہو جاتا ہے اسلئے واپسی پر آدھے راستے تک کوئی ایک آدھی دکان ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس وقت ہم اب دکانوں کی مارکیٹ کے پاس آ گئے تھے۔ شدید برفباری اور منفی کے ٹمپریچر میں گرما گرم پکوڑوں کی خوشبو نے ہمیں اپنی طرف کھینچ لیا۔ ہم نے پکوڑے والی دکان کا رُخ کیا دکان کے اندر چولہا جل رہا تھا جسکی وجہ سے ہمیں کافی سکون ملا۔ پکوڑے کھانے کے بعد ہم نے واپس اپنا سفر جاری رکھا برف ابھی تک گِر رہی تھی اور اچھی خاصی برف گر چکی تھی۔
مگر ہم نے حوصلہ ہارنے اور سردی کو اپنے اوپر ہاوی کرنے کی بجائے اردگرد کی رونق میں خود کو مگن رکھا۔ 3 بجے تک ہم جی پی او چوک کے قریب پہنچ چکے تھے۔
چوک مری GPO
چائے پینے کا دل چاہا تو مال روڈ پر موجود ٹی سٹال سے چائے لی اور ایک جگہ بیٹھ کر چائے کے مزے لینے لگے۔ برف تھمنے کا نام نہی لے رہی تھی اور ہم بھی ابھی تک اپنے آپ کو قائم کئے ہوئے تھے۔ 4 گھنٹے سے ہم لوگ برف باری میں گھوم رہے تھے مگر واپس کمرے میں جانے کا بلکل بھی دل نہی تھا۔
کافی لوگ اب مارکیٹوں میں گھوم
رہے تھے مگر ہم اپنی زندگی کے ان حسین لمحوں کو جی بھر کر انجوائے کرنا چاہتے تھے
اسلئے ہم جی پی او چوک کی سیڑھیوں پر جا کر بیٹھ گئے چونکہ برف باری صبح فجر سے ہو
رہی تھی تو جیسے ہی لوگوں کو برف باری کا پتہ چلا تو سب مری کی طرف آنے لگے۔ مال
روڈ پر دن کی بدولت اس وقت زیادہ رش تھا۔ 4 بجنے والے تھے برف آہستہ آہستہ کم ہونے لگی تھی جسکے ساتھ اب ہماری ہمت بھی ٹوٹ چکی تھی۔ اللہ کا نام لے کر ہم اپنے کمرے
کی طرف بڑھنے لگے۔ ہلکی بوندا باندی کی طرح اب برف گِر رہی تھی۔ 4 بجےتک ہم اپنے
کمرے میں جا چکے تھے۔
کمرے میں جا کر گیلے کپڑے چینج کیئے اور بستر میں چلے گئے۔
"بے عزتی اور سردی جتنی محسوس کرو اُتنی زیادہ لگتی ہے"
اوریہ بات سچ
ثابت ہوتے ہوئے ہمیں انتہا کی سردی لگ رہی تھی۔
صبح کا سفر اور بعد میں مال روڈ پر گزارے ہوئے 4 گھنٹے ہمیں تھکن کا احساس دلانے لگے کون کب سویا کسی کو کچھ پتہ نہی۔
رات کے 7 بجے میری آںکھ کھلی خود کو ہلکہ پھلکہ محسوس کیا تو بستر سے نکل کرباہر موسم چیک کرنے چلا گیا۔ برف باری تھم چکی تھی اور اُسکی جگہ اب ٹھنڈی ہوا نے لے لی تھی۔ میرا مال روڈ جانے کا دل کیا تو میں نے عامر اور عمران کو بھی جگایا۔ دوبارہ اپنے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپا اور ہوٹل سے باہر نکل گئے۔ تیز ہوا اتنی چل رہی تھی کہ ماسک لگانے کے باوجود ناک میں ٹھنڈی ہوا کا احساس ہو رہا تھا۔
ہم نے مال روڈ کا
رُخ کیا اور جی پی او چوک کی سیڑھیوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ چوک میں لوگوں کا ہجوم
لگا ہوا تھا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ سب لوگ ایک ریلوے اسٹیشن پر کھڑے ایسی
ٹرین کا انتطار کر رہے ہیں جو پیچھلے 3 گھنٹوں سے لیٹ ہو۔
قریب آدھ گھنٹہ
ایسے ہی بیٹھے لوگوں کے ہجوم کو گھورتے رہے۔ سیڑھیوں پر بیٹھا ہوا ہر بندا بغیر
کسی سے بات کئے چُپ بیٹھا ہوا تھا۔ لوگوں کا یہ ردِ عمل مجھے بڑا عجیب لگا۔ مزید
حیرانگی کی بات یہ کہ ہم تینوں دوستوں نے بھی آپس مِیں کسی قسم کی کوئی بات نہی
کی۔
شاید اس کی وجہ
دن میں ہونے والی برف باری میں گھومنے کی وجہ سے تھکاوٹ کا ہونا تھا اسی وجہ سے
لوگ اب خاموش دنیا کے ایک کونے میں بیٹھے اپنے آپ کو سکون پہنچا رہے تھے۔
بھوک کا احساس ہونے لگا تو ہم سیڑھیوں سے اُترے اورریسٹورینٹ کی طرف چل دیئے۔
کھانا کھانے کے بعد ہمیں محسوس ہوا جیسے ہم کافی دنوں سے بھوکے ہوں اور اب ہمارے جسم میں جان آ گئی ہو۔۔
اسکے بعد گرم سوپ کی طلب ہوئی اور سوپ پینے چل دیئے
تھکاوٹ اُتر چکی
تھی اور موڈ بھی فریش ہو چکا تھا۔ لہذا ہم نے مارکیٹ کا رُخ کیا۔ لوگوں کی ایک بہت
بڑی تعداد مارکیٹ وزٹ کرنے میں مصروف تھی جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے شامل
تھے۔
ہم نے بھی اپنی فیملی کیلئے گفٹس کھانے کی اشیاء چاکلیٹس اور گرم شالیں وغیرہ خریدیں اور مارکیٹ گھومتے ہوئے مال روڈ نکل آئے۔ رات کے 10:00 بج چکے تھے اور فیملیز اپنے اپنے ہوٹلوں کو جا چکی تھی۔ اس ٹائم مال روڈ پر وہی لوگ باقی رہ گئے تھے جو اپنی فیملی اور بچوں کے بغیر آئے ہوئے تھے۔ ہم بھی اب کمرے کی طرف چلنے لگے کیوں عمران کی طبعت اب بگڑنے لگی تھی۔
کمرے میں جا کر
ہم نے چائے بنائی اور ساتھ مین تاش کے پتے کھیلنے لگے جو گھر سے نکلتے وقت میں نے
اپنے بیگ میں رکھ لئے تھے۔
ہوٹل انتظامیہ سے
گیس والا ہیٹر منگوایا اور 2 گھنٹے تک اُس کو جلائے رکھا جس سے کمرے اور ہمارے جسم
کا ٹمریچر نارمل ہوا۔
رات کے 12:00 بج گئے تھے اور نیند عروج پر تھی۔ ہیٹر بند کیا اور اپنے اپنے بستر میں چلے گئے۔ کچھ دیر موبائل نکال کر دن بھر بنائی گئی تصاویر کو دیکھا اور چہرے پر مسکراہٹ سی آئی اور اللہ کا شکر ادا کیا جس نے ہمیں خیریت سے یہ دن دیکھایا اور میری خواہش کو پورا کیا۔ نیند سے آنکھیں بند ہونے لگی تھی اور موبائل بار بار ہاتھ سے چھوٹ کر منہ پہ گر رہا تھا۔ عامر اور عمران سو چکے تھے میں نے موبائل کو سائیڈ پہ رکھا اور سو گیا۔
اگلی صبح 7:00
بجے عامر نے جگایا۔ بستر سے نکلنے کا بلکل دل نہی تھا۔ بڑی مشکل سے بستر کو الوداع
کہا اور غسل خانے کو ہو لیا۔
فریش ہوا ٹرائزر شرٹ پہن کر اوپر جیکٹ اوڑھ لی۔ باہر دھوپ نکلی ہوئی تھی اور حد نگاہ تک برف
کی سفید چادر بچھی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ ناشتے سے فارغ ہو کر دوبارہ مال روڈ پر واک شروع کر دی۔ پیچھلے دن برف باری ہونے کی وجہ سے کافی شہروں سے سکولوں، کالجوں
اور یونیورسٹیز کے سٹوڈینٹس مری کو آ رہے تھے مگر اُن کی بدقسمتی تھی کہ اُس دن
سورج اپنی آنکھیں کھولے چمک رہا تھا۔
دھوپ کا احساس
بہت اچھا تھا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے کافی دنوں بعد دھوپ نکلی ہو۔ 2 گھنٹے تک
یوں ہی ہم دھوپ میں گھومتے رہے۔ یہ 2 گھنٹے کی چہل قدمی عارضی تھی اصل بہانہ دھوپ
کا احساس تھا جو ہمیں کہیں جانے نہی دے رہا تھا۔
مری میں قیام کا
ارادہ 2 راتوں کا تھا مگر اگلے دن دھوپ نکلنے کی وجہ سے ہم نے مری سے واپسی کا
ارادہ کیا۔
دوبارہ مارکیٹ کو گئے اور دکانیں وزٹ کرنے لگے۔ مزید کچھ اشیاء خریدی۔ جی پی او چوک کی سیڑھیوں پر جا کر بیٹھ گئے اور اپنے حسین پلوں کو کیمرے میں ریکارڈ کرنے لگا۔ کچھ دیر فوٹو گرافی کرنے ک بعد مال روڈ اور جی پی او چوک کو الوداع کہا اور دوبارہ کمرے کی طرف چل دیئے۔
یہاں آپکو ایک بات بتاوں کی
میں بار بار جی پی چوک کی سیڑھیوں کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کیوںکہ جب آپ مری جاتے ہیں تو وہاں سب سے زیادہ مشہور جگہ مال روڈ ہے اور مال روڈ پر واقع جی پی او مین پوائنٹ ہے اور مال روڈ پر سب سے زیادہ لوگوں کا ہجوم بھی آپکو جی پی او چوک پہ ہی ملے گا۔
کپڑے تبدیل کئے
اور اپنے اپنے بیگ پیک کرنے لگ گئے۔ 11:30 پر کمرے کی چابی ہوٹل کے استقبالیہ پر
دی اور ہوٹل سے باہر نکل گئے۔
روڈ سے ہم نے ایک کار بلوائی اور اُس کو راولپنڈی ریلوے اسٹیشن جانے کا بتایا۔ کافی بحث کے بعد ہماری ڈیل ہوئی اور ہم کار میں سوار ہوگئے۔ راستے میں ایک پُرانا قلع واقع تھا۔ ڈرائیور کے مطابق یہ قلع پوری دنیا میں دو ملکوں میں واقع ہے۔ ایک پاکستان اور دوسرا انڈیا میں۔ قلع تو نہی البتہ ایک آدھ دیوار کھڑِی تھی۔ تھوڑا وقت وہاں گزارنے کے بعد ہم دوبارہ واپس گاڑی میں بیٹھ گئے اور اپنے سفر کے اختتام کی طرف بڑھنے لگے۔
سفر کے اختتام اور واپسی پر ہمیشہ تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے اور کافی لوگ سفر کی واپسی پر سو جاتے ہیں۔ ہمارا بھِ کچھ ایسا ہی حال تھا۔ البتہٰ سونے سے پرہیز کی۔ راستے میں ڈھابے سے چائے پی اور اپنی نیند کو بھگایا۔ مری کی حدود ختم ہو رہی تھی اور بارہ کہو قریب تھا۔ موسم میں کافی تبدیلی محسوس ہو رہی تھی۔ دوپہر کے 3 بجنے والے تھے۔ مری سے نکلتے وقت ہم نے کچھ بسکٹ لیز اور بوتل وغیرہ لی تھی جو ہم نے بارہ کہو کراس کر کے بھوک لگنے پر کھا لئے۔ بارہ کہو سے آگے ٹریفک کا رش تھا جس کی وجہ سے ہم لوگ لیٹ ہو رہے تھے کیونکہ 5 بجے ہماری ٹرین تھی۔ تھوڑا سا آگے جا کر رش ختم ہوا اور ہم نے ڈرائیور کو گاڑی تیز چلانے کا کہا۔ راوالپنڈی میں مری روڈ پر فیض آباد میٹرو سٹاپ سے لے کر صدر میٹرو سٹاپ تک ہمیشہ ٹریفک کا رش کا لگا رہتا تھا مگر آج پہلے کی نسبت روڈ خالی تھا جسکی وجہ سے ہم 4 بجے تک راولپنڈی صدرریلوےاسٹیشن کی پارکنگ میں کھڑے تھے۔
راوالپنڈی ریلوے اسٹیشن
میں نے اور عمران نے اپنے شہر کا ٹکٹ خریدا جبکہ عامر نے لاہور کا ٹکٹ
لیا اور ہم پلیٹ فارم پر چلے گئے۔ عامر کی ٹرین نے 04:30 پر راولپنڈی سے روانہ
ہونا تھا اور ہماری 5 بجے۔ ہم نے عامر کو ٹرین پر بیٹھایا اور اُسے الوداع کیا۔
ٹرین نے حرکت شروع کی اور آہستہ آہستہ اسٹیشن سے نکل گئی۔ ہم نے بیگ کندھوں پر
اُٹھائے اور اپنی ٹرین پر سوار ہو گئے اور
اپنے اس دو دن کے سفر کا اختتام کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.profitableratecpm.com/tgarh6sef5?key=e1d3aa6d582cf590c6506f986ac0347c
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں